قدیم طب اور جدید میڈیکل سائنس دونوں، مرض کی تشخیص کیلئے اس کی وجوہات کو جاننا بہت ضروری خیال کرتی ہیں۔ انسان کو لاحق ہونے والے جسمانی اور نفسیاتی امراض کی وجوہات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک مکمل طور پر مادی، طبعیاتی یا جسمانی وجوہات ہیں اور دوسری خاندانی، معاشرتی، ذہنی اور روز مرہ کے معمولات سے متعلق وجوہات ہیں۔ مادی وجوہات کے لیے مرض کی علامات دیکھی جاتی ہیں، متعلقہ اعضا اور جسمانی نظام کے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں، تاکہ معلوم ہوسکے کہ جسم کا کون سا عضودرست کام نہیں کر رہا۔ ان تمام حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر مرض کی جزوی تشخیص ہوتی ہے۔ لیکن مکمل تشخیص کے لیے دوسری قسم کی معلومات ضروری ہیں۔ مثلاً معدے کے السر کے ٹیسٹوں نے یہ تو بتا دیا کہ زخم کہاں ہے، کتنا گہرا اور خطرناک ہے لیکن اس کی مکمل تشخیص کیلئے ایک ماہرڈاکٹر کاغذ قلم پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور معلومات کا ایک چارٹ مرتب کرنے لگتا ہے جسے ”کیس ہسٹری” کہتے ہیں۔ اس چارٹ میں لاتعداد معلومات حاصل کی جاتی ہیں، مثلاً آپ کھانے میں کیا کچھ کھاتے ہیں، چکنائی اور مصالحہ جات کتنا استعمال کرتے ہیں، جسمانی ورزش کتنی کرتے ہیں، کتنے گھنٹے نیند کرتے ہیں، نیند پوری ہوتی ہے یا کمی رہ جاتی ہے۔
کھانا کتنی بار اور کتنے وقفوں سے کھاتے ہیں۔ یہ تو لائف سٹائل اور طرز زندگی کی معلومات ہوئیں۔ اب ایک اچھا ڈاکٹر مزید کچھ معلومات بھی ”کیس ہسٹری” میں شامل کرتا ہے جو اس مرض پر بالواسطہ اثرانداز ہورہی ہوتی ہیں۔ مثلا آپ کو کوئی پریشانی تو لاحق نہیں ہے۔ کہیں بے خوابی،بلاوجہ اضطراب، غصہ اور بے چینی تو نہیں ہوتی۔ کبھی خود کلامی تو نہیں کرنے لگ جاتے، آرام سے چلتے ہوئے اچانک تیز تیز دوڑ تو نہیں پڑتے۔ غرض لاتعداد ایسی معلومات ہیں جن کو ’’کیس ہسٹری ‘‘کا حصہ بنا کر ایک اچھا ڈاکٹر مریض کے علاج کیلئے ایک پلان مرتب کرتا ہے۔ اس پلان میں مریض کو خوراک کی احتیاطیں بتائی جاتی ہیں، اس کے لائف سٹائل کو تبدیل کرنے کیلئے کچھ پابندیاں لگائی جاتیں ہیں اگر وجوہات نفسیاتی بھی ہوں تو پھر دوا کو موثر کرنے کے لئے مختلف قسم کے مسکّن (Tranquilizers) بھی دیے جاتے ہیں اور جسمانی ورزشیں بھی بتائی جاتی ہیں جس سے آدمی ذہنی طور پر پرسکون ہو جاتا ہے اور یوں اسکی بیماری کا تشفی بخش اور شاندار علاج ممکن ہوپاتا ہے۔ بالکل اسی طرح بستیوں، شہروں اور ملکوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفتوں کی وجوہات جاننے کے لیے بھی ایک تفصیلی ”کیس ہسٹری” مرتب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آفتوں اور بلاؤں کی کیس ہسٹری مرتب کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ ایک خالصتاً طبیعاتی اور مادی اور دوسرا طرز زندگی اور انسانی اخلاق و اقدار سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے حصے کی معلومات کا طریق کار یہ ہے کہ،زلزلہ کب آیا، مرکز کہاں تھا، کتنا گہرا تھا، زیرزمین کیا ہو رہا تھا یا اگر طوفان آیاتو، کہاں سے سحاب اٹھا، ہوا نے رفتار بدلی اور کس طرح وہ ایک طاقتور عفریت میں تبدیل ہوگیا۔ اسی طرح ایک خاص قسم کے مچھر نے صاف پانی میں پرورش پائی، انسان کو کاٹا اور لوگوں کو ڈینگی ہو گیا، طاعون کا جرثومہ ایک خاص درجہ حرارت اور طبعی ماحول میں پرورش پاتا رہا اور پھر اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ تو آفات اور وباؤں کی وجوہات جاننے کا ایک طبیعاتی طریق کار ہے۔
لیکن انسانی تاریخ میں وباؤں اور آفات کے بارے میں ایک اور سائنسی مفروضہ یعنی Hypothesis بھی ہے۔ وہ مفروضہ یہ ہے کہ انسانوں کی کسی بستی، علاقے،یا ملک کے افراد انسانوں پر اس قدر ظلم روا رکھتے ہیں کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ یہ ظلم کرنے والے تو چند لوگ ہوتے ہیں مگر پوری قوم اول تو ان کے ظلم پر خاموش رہتی ہے یا ایک وقت کے بعد اس ظلم پربھی فخر کرنے لگتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایسی بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں۔ قرآن پاک میں بھی بستیاں تباہ کرنے کا یہی اصول بتایا گیا ہے۔ قوم ثمود پر عذاب کی وجہ بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ” اور شہر میں نو (9) آدمی ایسے تھے جو زمین میں فساد مچاتے تھے اور اصلاح کا کام نہیں کرتے تھے (النمل:49)۔ پوری بستی ان کے ظلم پر خاموش تھی۔ اللہ نے ان پر ایسی چنگھاڑ بھیجی کہ وہ دھنی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح ہوگئے۔ اللہ نے رسول اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل ہر عذاب، آفت اور وبا کا قرآن میں یہی پس منظر بتایا ہے۔ لیکن بعثتِ رسول ﷺ کے بعد سے لے کر آج تک، دنیا میں وباؤں کی صورت لاتعداد بیماریاں پھیلیں جنہوں نے بستیاں اجاڑ دیں۔کیا ان آفتوں کے پیچھے بھی قدرت کا یہی اصول کارفرما تھا۔ صرف ایک وباء کی کیس ہسٹری کا مطالعہ کرتے ہیں۔ گذشتہ چودہ سو برسوں میں سب سے بڑی وباء یا آفت، پلیگ یا طاعون تھی جو 1331ء سے 1353ء تک بیس سال یورپ پر راج کرتی رہی اور محتاط اندازے کے مطابق اسکی وجہ سے یورپ کی ستر فیصد آبادی موت کی آغوش میں چلی گئی۔ اسے تاریخ میں (Black Death) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسکی طبیعاتی وجوہات یہ تھیں کہ منگولیا اور اسکے اردگرد کے علاقوں میں گرم مرطوب موسم کی وجہ طاعون کے جرثومے (Yarsinia pestis) کی پیدائش ہوئی، موسم کی وجہ سے افزائش بہت تیز ہوئی اور پھر تاجروں اور منگول افواج کے ہمراہ یہ جرثومہ اڑتی ہوئی مکھیوں کے ساتھ ساتھ دیس بدیس سفر کرنے لگا۔
طاعون کا یہ جرثومہ جہاں سے گزرتا،لوگوں کو طاعون کا شکار کرتا جاتا۔ لیکن ایشیا اور افریقہ میں اموات کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوئی۔مگر اس جرثومے کے سفر کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ نے اس آفت، وبا اور بلا کے اصل ہدف کیلئے یورپ کی سرزمین کا انتخاب کر رکھا تھا۔ کریمیا کی بندرگاہ کافہ پر یہ جرثومہ ہزاروں میل کا سفر کر کے 1347 میں پہنچا، اٹلی کے شہر سسلی میں اکتوبر 1347، وینس میں جنوری 1348، انگلینڈ اور پرتگال میں جون 1348 اور پھر فرانس، جرمنی اور یورپ سے ہوتا ہوا واپس منگولیا کے پڑوسی ملک روس میں 1350 میں پہنچااورموت نے یورپ کا چکر مکمل کرلیا۔ کالی موت میں 70 فیصد یورپی آبادی ختم ہو گئی اور دو کروڑ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ انسانی تاریخ کی اس سب سے بڑی آفت کا جرثومہ چین سے لے کر ایشیا اور افریقہ ہر جگہ گیا، لیکن تباہی کیلئے اس کا انتخاب یورپ ہی کیوں ہوا۔ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب ہمیں تاریخ میں ملتا ہے۔اس طاعون سے پہلے کی تین صدیوں میں یورپ نے بحیثیت مجموعی ایسے لاتعداد مظالم کئے تھے کہ اللہ نے ان پر ”کالی موت” مسلط کردی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ 1096ء سے لے کر 1271ء تک 200 سال مسیحی یورپ نے نو صلیبی جنگیں لڑیں جن میں یورپ کا بچہ بچہ جوش وخروش سے شریک ہوا۔ان صلیبی جنگوں میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔
جنگوں کے اختتام کے بعد پادریوں اور چرچ کو ایسا بے پناہ اختیار حاصل ہو گیا کہ انہوں نے عالموں، فلسفیوں اور سائنسدانوں کو ”منحرف” کے فتوے لگا کر قتل کرنا شروع کر دیا اس عمل کو تاریخ میں Witchcraft کہتے ہیں۔ یہ قتل و بربریت1300 میں شروع ہوئی اور اسی دوران ”کالی موت” یورپ آپہنچی، اس وقت یورپ کے شہروں کے بیچوں بیچ آگ جلائی جاتی اور ان میں منحرفین کو پھینک دیا جاتا۔ شہر کے لوگ جوق در جوق تالیاں بجاتے اور مسرت سے جھومتے۔ یہ سب اپنی مستی میں گم تھے کہ میرے اللہ کا پیداکردہ جرثومہ منگولیا سے ان کی تا ک میں سفر کرتا ہوا یورپ جا پہنچا اور اس نے تین چوتھائی یورپ کو موت کی نیند سلا دیا۔ کوئی ہے جو آج اس بات پر غور کرے ہمارے ہاں کرونا کیوں پھیل رہا ہے۔ کیا یہ وجہ تو نہیں کہ پہلی جنگ عظیم سے لے کر آج تک یورپ اور امریکہ نے کروڑ وںبے گناہ انسان اس کرہ ارض پر قتل کیے ہیں۔ کیا کرو نا کہیں اللہ کی تخلیق کردہ ایک آفت تو نہیں ہے جو چند دن چین میں رہ کر اب اپنی منزل کی جانب موت کا پروانہ لے کر پہنچ چکی ہے۔
Source: 92 news